EN हिंदी
تسخیر فطرت کے بعد | شیح شیری
tasKHir-e-fitrat ke baad

نظم

تسخیر فطرت کے بعد

شہاب جعفری

;

ہوا اے ہوا
میں ترا ایک ایک انگ لہرا تھا

صدیوں ترے ساتھ دشت و دمن کوہ و صحرا میں
آزاد و سرشار پھرتا رہا ہوں

سمندر کی چھاتی پہ صدیوں ترے ساتھ
بد مست و بے فکر چلتا رہا ہوں

انوکھی زمینوں طلسمی جزیروں کو دریافت کرتا رہا ہوں
مجھے تو نے فطرت کے معبد

صنم خانۂ کائنات، آذری کے طلسمات سے آ کے باہر نکالا
مرے خوف سے کانپتے دل کو

وہموں سے لبریز اوندھے ہوے کاسۂ سر کو
سجدے سے تو نے اٹھا کر

انہیں آگہی و عمل کا نیا نور بخشا
مجھے خود سے اور خود کے باہر مظاہر سے

صدیوں ہم آہنگ و ہم رتبہ ہونا سکھایا
سمندر کے دکھ کو سمجھنے کی خاطر

ابلتے ہوے گرم پر شور طوفاں کو چلو سے ناپا ہے میں نے
بیاباں کی تنہائی کو دور کرنے کی خاطر

میں تپتی ہوئی ریت پر صدیوں پیاسا ہی پیدل چلا ہوں
بدلتے ہوئے موسموں کا فسوں ٹوہنے کو شب و روز میں نے

بہار و خزاں میں درختوں کے سایوں سے پتوں کی سانسیں گنی ہیں
زمانے کا ہر سرد و گرم آزمانے کو صدیوں ہی تک میں

پہاڑوں کی برفیلی چوٹی سے
جوالا مکھی کے دہانے سے گزرا کیا ہوں

اور اس پر بھی جب ناتمامی کا احساس ڈستا رہا
اپنی تکمیل کرنے کی خاطر

ستاروں کی پر نور چوکھٹ کو چوما ہے
دھرتی کے تاریک غاروں میں خود کو پکارا ہے میں نے

غرض زندگی کے ہر اک درد سے خود کو انگیز و دم ساز کر کے
ہوا، اے ہوا

میں کہ تجھ سے بچھڑنے سے پہلے
تری طرح آزاد و سرشار تھا

اب یہ کس طرح کی منہمک، ٹوٹتی زندگی ہے؟
کہ تو شہر شہر آگہی کی تگ و تاز سہنے کے قابل نہیں

اور میں شہر شہر ایک پتھر سا آن پتھ پہ بے حس پڑا
اب تری سست پیمائی اور اپنی بے چارگی کا

یہ کس سے گلہ کر رہا ہوں