تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا
کیونکہ یہ چاند تو اس دھرتی کے چار طرف ناچا کرتا ہے
میں البتہ دیوانہ ہوں
تیرے گرد پھرا کرتا ہوں
جیسے زمیں کے گرد یہ چاند اور سورج کے گرد اپنی زمیں ناچا کرتی ہے
لیکن میں بھی چاند نہیں ہوں
میں بادل کا اک ٹکڑا ہوں
جس کو تیری قربت کی کرنوں نے اٹھا کر زلفوں جیسی نرم ہوا کو سونپ دیا ہے
لیکن بادل کی قسمت کیا
تیرے فراق کی گرمی مجھ کو پگھلا کر پھر آنسو کے اک قطرہ میں تبدیل کرے گی
تجھ کو چراغ نہیں کہہ سکتا
کیونکہ چراغ تو شام غریباں کے صحرا میں صبح وطن کا نقش قدم ہے
مجھ میں اتنا نور کہاں ہے
میں تو اک دریوزہ گر ہوں
سورج چاند ستاروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہوں
ایک کرن دو
ایک دہکتا انگاروں دو
کبھی کبھی مل جاتا ہے
اور کبھی یہ دریوزہ گر خالی ہاتھ چلا آتا ہے
میں تو ایک دریوزہ گر ہوں
کلیوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہوں
اک چٹکی بھر رنگ اور اسے خوشبو دے
لفظوں کا کشکول لیے پھرتا رہتا ہوں
کبھی کبھی کچھ مل جاتا ہے
اور کبھی یہ دریوزہ گر چاک گریباں پھولوں کو خود اپنے گریباں کا اک ٹکڑا دے آتا ہے!
تجھ کو خواب نہیں کہہ سکتا
خوابوں کا کیا
خزاں رسیدہ پتی کے مانند ہوا کی ٹھیس سے بھی ٹوٹا کرتے ہیں
لیکن میں بھی خواب نہیں ہوں
خواب تو وہ ہے جس کو کوئی دیکھ رہا ہو
میں اک دید ہوں
اک گیتا ہوں
اک انجیل ہوں اک قرآں ہوں
راہ گزر پر پڑا ہوا ہوں
سود و زیاں کی اس دنیا میں کسے بھلا اتنی فرصت ہے
مجھے اٹھا کر جو یہ دیکھے
مجھ میں آخر کیا لکھا ہے
تجھ کو راز نہیں کہہ سکتا
راز تو اکثر کھل جاتے ہیں
لیکن میں بھی راز نہیں ہوں
میں اک غمگیں آئینہ ہوں
میری نظموں کا ہر مصرعہ اس آئینہ کا جوہر ہے
آئینہ میں جھانک کر لوگ اپنے کو دیکھ رہے ہیں
آئینہ کو کس نے دیکھا
تو ہی بتلا تیرے لیے میں لاؤں کہاں سے اب تشبیہیں
جس تشبیہ کو چھوتا ہوں وہ جھجھک کے پیچھے ہٹ جاتی ہے
کہہ اٹھتی ہے
میں ناقص ہوں
جان تمنا
تیرا شاعر تیرے قصیدے کی تشبیب کی وادی ہی میں آوارہ ہے
نظم
تشبیب
راہی معصوم رضا