EN हिंदी
تسلسل | شیح شیری
tasalsul

نظم

تسلسل

احمد فراز

;

کب سے سنسان خرابوں میں پڑا تھا یہ جہاں
کب سے خوابیدہ تھے اس وادئ خارا کے صنم

کس کو معلوم یہ صدیوں کے پراسرار بھرم
کون جانے کہ یہ پتھر بھی کبھی تھے انساں

صرف لب دوختہ پربت ہیں جہاں نوحہ کناں
نہ در و بام نہ دیوار و دریچہ کوئی

کوئی دہلیز شکستہ نہ حریم ویراں
شہر کے شہر ہیں پاتال کے دامن میں نہاں

کون پہچانتا ظلمت ہیں سیاہی کے نشاں
جو نظر ڈھونڈنے اٹھی وہ نظر بھی کھوئی

چشم مہتاب بھی شبنم کی جگہ خوں روئی
علم نے آج کریدے ہیں وہ ظلمات کے ڈھیر

وقت نے جس پہ بٹھائے تھے فنا کے پہرے
جاگ اٹھے صور سرافیل سے گونگے بہرے

تا ابد جن کے مقدر میں تھی دنیا اندھیر
یہ مگر عظمت انساں ہے کہ تقدیر کے پھیر؟

یہ عمارات، یہ مینار، یہ گل زار، یہ کھیت
تودۂ خاک سے ہستی نے لیا تازہ جنم

جی اٹھے وادئ خاموش کے بے جان صنم
پھر کوئی چیرے گا ذرے کا جگر قطرۂ یم

دفن کر دے گا جو خالق کو بھی مخلوق سمیت
اور یہ آبادیاں بن جائیں گی پھر ریت ہی ریت