EN हिंदी
ترسیل | شیح شیری
tarsil

نظم

ترسیل

بلراج کومل

;

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اچھا یا برا کچھ بھی نہیں ہے
تقریب ولادت ہو یا ہنگام دم مرگ

اک لمحے کو تصویر میں ڈھلنا ہے وہ ڈھل جاتا ہے آخر
وہ نغمہ ہو یا گریہ یا انداز تکلم

سب عکس ہیں اسرار فسوں کار کے شاید
یکساں ہیں مکافات کی یورش میں سبھی رنگ

سرگوشیاں کرتے ہیں گزر جاتے ہیں آنکھوں کے جہاں سے
پیمانۂ جاں سے

کیا جھوٹ ہے کیا سچ ہے کسے کون بتائے
سب شور سلاسل میں اتر آئے ہیں کچھ سوچ رہے ہیں

تصویر کے دو رخ تھے کبھی سنتے ہیں اب لاکھ ہوئے ہیں
انسان یا حیوان یا بے جان کوئی نام نہیں ہے

اک رقص تموج ہے شبیہوں کا ہیولوں کا صداؤں کا فراموش دلوں کا
اس راہ سے گزرے تھے تمہیں روک لیا اپنا سمجھ کر

باتیں بھی ہوئیں تم کو ذرا دیر کو سینے سے لگایا
آنکھوں میں دل و جاں میں بسایا

جاؤ گے تمہیں جانا ہے معلوم تھا مجھ کو
سچ یہ ہے کہ تنویر ملاقات سے روشن تھا یہ لمحہ

سچ یہ ہے کہ سر راہ چراغ اس نے جلایا
سچ یہ ہے کہ بے ساختہ جذبات سے روشن تھا یہ لمحہ

امروز یہ میرا تھا، مگر میری دعا ہے
یہ لمحہ ہم دونوں کے امکان کا محور

کل بھی یہ کرے دونوں کو ہم دونوں کو سرشار منور