کبھی تم جو آؤ
تو میں صبح کے چھٹپٹے میں
تمہیں سب سے اونچی عمارت کی چھت سے دکھاؤں
درختوں کے اک سبز کمبل میں لپٹا ہوا شہر سارا
کلس اور محراب کے درمیاں اڑنے والے مقدس کبوتر
بہت دور چاندی کے اک تار ایسی ندی
اس سے آگے جری کوہساروں کا اک سرمئی سلسلہ
کبھی تم جو آؤ
تو میں ایک تپتی ہوئی دوپہر میں
تمہیں اپنے اس آہنی شہر میں لے چلوں
ایک لوہے کے جھولے میں تم کو بٹھاؤں
تمہیں سب سے اونچی عمارت کی چھت سے دکھاؤں
ملوں کے سیہ رنگ نتھنوں سے بہتا دھواں
تنگ گلیوں سے رستی ہوئی نالیاں
جو مساموں کی صورت
مکانوں کے جسموں سے گاڑے پسینے کو خارج کریں
کھانستی ہونکتی شاہراہیں
ہراساں ،غصیلی تھکی ٹیکسیاں
پرانے گرانڈیل پیڑوں کے کٹنے کا منظر
شکستہ عمارات کی ہڈیوں پر
مڑی چونچ والے سیہ فام بلڈوزروں کے جھپٹنے کا وحشی سماں
کبھی تم جو آؤ
تو میں تم کو پلکوں پر اپنی بٹھاؤں
تمہیں اپنے سینے کے اندر کا منظر دکھاؤں
نظم
ترغیب
وزیر آغا