EN हिंदी
ترغیب | شیح شیری
targhib

نظم

ترغیب

میراجی

;

رسیلے جرائم کی خوشبو
مرے ذہن میں آ رہی ہے

رسیلے جرائم کی خوشبو
مجھے حد ادراک سے دور لے جا رہی ہے

جوانی کا خوں ہے
بہاریں ہیں موسم زمیں پر!

پسند آج مجھ کو جنوں ہے
نگاہوں میں ہے میرے نشے کی الجھن

کہ چھایا ہے ترغیب کا جال ہر اک حسیں پر
رسیلے جرائم کی خوشبو مجھے آج للچا رہی ہے!

قوانین اخلاق کے سارے بندھن شکستہ نظر آ رہے ہیں
حسین اور ممنوع جھرمٹ مرے دل کو پھسلا رہے ہیں

یہ ملبوس ریشم کے اور ان کی لرزش
یہ غازہ..... یہ انجن

نسائی فسوں کی ہر اک موہنی آج کرتی ہے سازش
مرے دل کو بہکا رہی ہے!

مرے ذہن میں آ رہی ہے
رسیلے جرائم کی خوشبو!