تنہا بیٹھا ہوں کمرے میں ماضی کی تصویر لیے
اب تو انجانے قدموں کی آہٹ سے جی ڈرتا ہے
میری چاہت ان کے وعدے دفن ہوئے تحریروں میں
جھوٹے ہیں سارے افسانے کون کسی پر مرتا ہے
سینے کی ہر ایک جلن سے سمجھوتا کر کے میں نے
ان ساری بیتی باتوں کو تاریکی میں چھوڑ دیا
شیشہ کہہ لو پتھر کہہ لو کبھی بھی کہہ لوں اس دل کو
میں نے اس افسردہ شے کو تنہائی سے جوڑ دیا
اب نازک نازک ذہنوں پر فولادی حملہ ہوگا
شیشوں کے پیکر پگھلیں گے پتھریلی تنہائی میں
خوابوں کا سنسار سنہرا تہہ خانوں میں بھٹکے گا
عقل بچاری جا دبکے گی سوچ کی گہری کھائی میں

نظم
تنہائی
چندر بھان خیال