یہ ہوتا ہے
کوئی مانے نہ مانے
یہ تو ہوتا ہے
کسی پھیلے ہوئے لمحے کسی سمٹے ہوئے دن
یا اکیلی رات میں ہوتا ہے
سب کے ساتھ ہوتا ہے
بدن کے خون کا لوہا خیالوں کے الاؤ میں ابل کر
سرخ نیزے کی انی کو سر کی جانب پھینکتا ہے
اور پھر شہتیر گر جاتا ہے
جس پر خود فریبی پتلی اینٹوں کی چنائی کرتی رہتی تھی
یہ میرا مال فتنہ ہے
مرے ماں باپ سایہ ہیں
مری اولاد فتنہ ہے
بہت تنہا ہے انساں
کیمیا گر کے پیالے سے گرے قطرے کے پارے کی طرح تنہا
سفر کرتے ہوئے تاروں کے جھرمٹ میں کھڑے
قطبی ستارے کی طرح تنہا
یہ سب
ہنستے ہوئے لب، روتی آنکھیں
حنجرے کے جوف سے لہرا کے نکلی ساری آوازیں
یہ گاتے ناچتے لوگوں کے جھرمٹ
عشوہ و ناز و ادا سے کھینچتے پیکر
یہ ساری سیر بینی خود فریبی ہے
یہ ساری یار باشی اور سب صحرا نشینی خود فریبی ہے
میں اپنی ماں کے پہلے دودھ سے درد تہ ہر جام تک
تنہائی کے اک خط پہ چلتا جا رہا ہوں
میں اکیلا ہوں
میں بزم دوستاں کے قہقہوں کے گونج میں ڈوبے
سرابی دشت کی لرزش میں پانی ڈھونڈتا ہوں
میں اکیلا ہوں
مری تنہائی
ماں جائی
جو میرے ساتھ پیدا ہو کے میلے میں کہیں گم ہو گئی تھی
میری بو کی ڈھونڈتی
میرے لہو کو سونگھتی واپس چلی آئی ہے
میرے سامنے بیٹھی ہے
مجھ کو دیکھتی ہے
اس کا ہر تار نظر آنکھوں سے داخل ہو کے
میری کھوپڑی کی پشت سے باہر نکلتا ہے
مری تنہائی صنعت کار ہے
وہ میری شریانوں سے لہو چھان کر نیزے بناتی ہے
نظم
تنہائی مجھے دیکھتی ہے
وحید احمد