جھانکتا ہے تری آنکھوں سے زمانوں کا خلا
تیرے ہونٹوں پہ مسلط ہے بڑی دیر کی پیاس
تیرے سینے میں رہا شور بہاراں کا خروش
اب تو سانسوں میں نہ گرمی ہے نہ آواز نہ باس
تو نے اک عمر سے بازو بھی نہیں پھیلائے
پھر بھی بانہوں کو ہے صدیوں کی تھکن کا احساس
تیرے چہرے پہ سکوں کھیل رہا ہے لیکن
تیرے سینے میں تو طوفان گرجتے ہوں گے
بزم کونین تری آنکھ میں ویران سہی
ترے خوابوں کے محلات تو سمجھے ہوں گے
گرچہ اب کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
پھر بھی آہٹ پہ ترے کان تو بجتے ہوں گے
وقت ہے ناگ ترے جسم کو ڈستا ہوگا
یخ کر تجھ کو ہوائیں بھی بپھرتی ہوں گی
سب ترے سائے کو آسیب سمجھتے ہوں گے
تجھ سے ہم جولیاں کترا کے گزرتی ہوں گی
کتنی یادیں ترے اشکوں سے ابھرتی ہوں گی
زندگی ہر نئے انداز کو اپناتی ہے
یہ فریب اپنے لیے جال نئے بنتا ہے
رقص کرتی ہے ترے ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی
اور جی کو کوئی روح کی طرح دھنتا ہے
لاکھ پردوں میں چھپا شور اذیت لیکن
دل ترے دل کے دھڑکنے کی صدا سنتا ہے
تیرا غم جاگتا ہے دل کے نہاں خانوں میں
تیری آواز سے سینے میں فغاں پیدا ہے
تیری آنکھوں کی اداسی مجھے کرتی ہے اداس
تیری تنہائی کے احساس سے دل تنہا ہے
جاگتی تو ہے تو تھک جاتی ہے آنکھیں میری
زخم جلتے ہیں ترے درد مجھے ہوتا ہے
نظم
تنہائی کے بعد
شہزاد احمد