EN हिंदी
تنہائی کا سفر نامہ | شیح شیری
tanhai ka safarnama

نظم

تنہائی کا سفر نامہ

انجم سلیمی

;

شام ہوتے ہی گھر مجھ سے چھوٹا پڑ جاتا ہے
میں رستوں کی بد دعا پر نکلا ہوں

جہاں آنکھوں کو چہرے کمانے سے فرصت نہیں
لگتا ہے تنہائی مجھ سے اوب گئی ہے

سانسیں میلی ہو رہی تھیں
مٹی نے مجھے پھول بنا دیا

خوشبو ہوا کی دوست ہو جائے
تو بے رنگے لوگ رنگ رنگ کی باتیں

کرتے ہی ہیں
(وہ خواہ کتنے بھی چھوٹے ہو جائیں

اچھا موسم ان پر کبھی پورا نہیں آتا)
بد زبانوں کو معلوم نہیں

عریانی صرف آنکھوں پر جچتی ہے
میں زمین پر گرا ہوا چاند ہوں

قدموں سے پہلے دیوار مجھے پھلانگ رہی ہے
منڈیر پر دھرا چراغ مجھ سے زیادہ روشن ہے!

میں بھی تو میں ہوں
ایک گناہ کے عوض اپنا ساری نیکیاں

خرچ کر بیٹھتا ہوں
خاموشی کے خالی بدن میں

کوئی دھن مجھے گنگناتی رہتی ہے
اداسی اور کہاں رہے

کاش خدا مجھے دیکھ رہا ہو!