EN हिंदी
تنہا | شیح شیری
tanha

نظم

تنہا

ضیا جالندھری

;

اک شاخ سے پتا ٹوٹ گرا
اور تو نے ٹھنڈی آہ بھری

اک شاخ پہ کھلتا شگوفہ تھا
تو اس سے بھی بیزار سی تھی

تو اپنے خیال کے کہرے میں
لپٹی ہوئی گم سم بیٹھی تھی

تو پاس تھی اور میں تنہا تھا
میرے دل میں تیرا غم تھا

تیرے دل میں جانے کس کا
ہم دونوں پاس تھے اور اتنے

انجان ہوا کا ہر جھونکا
اک ساتھ ہی ہم سے کہتا تھا

''اے راہ عشق کے گمراہو
تم دونوں کتنے تنہا ہو''

لیکن یہ اسے معلوم نہ تھا
ہم ایک تھے ایک تھے ہم دونوں

ہم ایک ہی دکھ کے مارے تھے
دونوں کے دھڑکتے سینوں میں

صرف ایک ہی درد سلگتا تھا
لیکن یہ اسے معلوم نہ تھا

کہتا رہا وہ تو یہی ہم سے
''اے راہ عشق کے گمراہو

تم دونوں کتنے تنہا ہو''