وقت اور نا وقت کے مابین
کتنا فاصلہ
کتنا خلا
کتنی گھنیری خامشی ہے
جاننے کی کوششوں میں
آنکھ کی اور دل کی اجلی آنکھ کی
بینائیاں کم پڑ گئی ہیں
سوچتا ہوں
سوچ کا کوئی پرندہ بھیج کر
اس حد لا حد کا
کوئی اندازہ کر لوں
خود سے کہتا ہوں
تجھے معلوم ہے
یہ کام سوچوں کے پرندوں کا نہیں
تخئیل کا ہے
جو پرندہ غیب کی اس جھیل کا ہے
جس میں سب نا دیدگاں کے
عکس بنتے رقص کرتے ہیں
انہی نا دیدگاں میں
وقت اور نا وقت کے مابین کا
وہ فاصلہ اور وہ خلا اور وہ گھنیری خامشی
بھی ہو تو کیا معلوم
بہتے عکس ان کے طائر تخئیل کے شہ پر سے لپٹے ساتھ آ جائیں
یہ گہرے بھید میرے ہاتھ آ جائیں
نظم
تمنا کا دوسرا قدم
دانیال طریر