نہ جانے کیوں یہ لگ رہا ہے
جیسے کھو گیا ہے کچھ
کبھی یہ لگ رہا ہے
جیسے ہم نے پا لیا ہے کچھ
وہ کیا ہے جو کہ کھو گیا
وہ کیا تھا جس کو پا لیا
یہ بات مشتمل ہے
ایک عرصۂ عقیل پر
قلندر ایک رو نما
ہوا تھا اک سبیل پر
وہ پہلے علم و فن کی پوری
پیاس کو جگاتا تھا
سوال پوچھتا تھا اور
تشنگی بجھاتا تھا
وہ کہتا تھا کہ خواب دیکھو
جاگتی ان آنکھوں سے
وہ ہارنے کے قصے کو ہی
پڑھتا تھا پڑھاتا تھا
وہ کہتا تھا کہ جیت کے یہ واقعے
پیام ہی تو دیتے ہیں
مگر شکست جانے کتنے
راستوں کے کچھ
الگ الگ نشان دیتی ہے
سمندروں کی گود میں
وہ کھیل کر جوان ہوا
اور اپنے علم و فن سے وہ
جہاں پر ہی چھا گیا
ہر ایک ملک جانے کب سے
اس کا منتظر رہا
مگر وہ ہند کا سپوت
ہند میں رہا کیا
وہ اپنے ملک کے تمام
بچوں سے یہ کہتا تھا
کہ کالا رنگ داغ
ہو بھی سکتا ہے کسی جگہ
مگر یہ رنگ فن جستجو لئے
چراغاں ہے کسی جگہ
نہ جانے ایسے کتنے فارمولے
وہ جہاں کو ہے دے گیا
وہ علم کا نقیب تھا
وہ جہل کہ صلیب تھا
وہ فہم کا رفیق تھا
وہ مخلص و شفیق تھا
وہ انفرادیت کا ایک جانا مانا نام تھا
وہ انجذابیت کا ایک خوش نما پیام تھا
مگر وہ شخص آج
ہم کو چھوڑ کر چلا گیا
ہے سانحہ یہ ملک کے لئے
بہت بڑا مگر
غلط نہ ہوگا اے شفاؔ
میں بات یہ کہوں اگر
کہ میں تو گم ہوں بس
کسی نے اس ایک فکر میں
کسے تلاش کر کے لاؤں
اب میں اپنے ملک سے
جسے نہ اپنے عہدہ اور رتبے کا غرور ہو
جسے نہ اپنے علم کا ہنر کا کچھ سرور ہو
جو آئے تو خزانہ علوم لے کے آئے اور
جو جائے تو محبت عوام لے کے جائے بس
بھٹک رہا ہے ذہن و دل
تلاش ناگزیر کو
اور آنکھ ڈھونڈھتی ہے بس
اک ایسے بے نظیر کو
نظم
تلاش
شفا کجگاؤنوی