EN हिंदी
تلاش | شیح شیری
talash

نظم

تلاش

شہاب جعفری

;

رستہ یہ جانا پہچانا ہے کبھی کبھی یہ اپنا ہوتا تھا
برسوں برس تک ان پتھ پر پیار ہمارا سنجوتا تھا

سانجھ سویرے ان دیکھی برکھا سے نم رہتی تھی خاک
شام کا غنچہ صبح کا سورج، شبنم سے منہ دھوتا تھا

خاک سے تیرے بدن کی خوشبو ڈالی ڈالی اڑتی تھی
دھیان کا بھونرا پھول کی بکھری پنکھڑیوں کو پروتا تھا

سوچ کی اٹھتی گرتی لہریں تجھ کو کہیں سے لے آتیں
ساحل نور پہ تیرا سایہ بیٹھا پاؤں بھگوتا تھا

اک ماندی سی لہر اچانک تیری گود میں جا گرتی
دھرتی سے آکاش تک اک آغوش کا عالم ہوتا تھا

سوتی رات کا جادو چلتا کھنچتے ہوئے دامن کی اوٹ
چاند کا جوبن چھلکا پڑتا ساگر پیاسا ہوتا تھا

گیسو تیرے بکھرے جاتے پہلو تیرے کھلتے جاتے
شوق کی آنکھیں لوری دیتیں تیرا حجاب نہ سوتا تھا

سبزہ سبزہ نیند بچھی تھی، چاند کی سی رفتار سے ہم
ہولے ہولے پانو اٹھاتے خواب کا عالم ہوتا تھا

جانے کون سے موڑ پہ تیرا ہاتھ اچانک چھوٹ گیا
گیان کی اس بورائی پون میں دھیان بھی تیرا ٹوٹ گیا

اپنی وہ دھرتی سارے جہاں میں پھر نہ کہیں پہچان ملی
اس مٹی کی خوشبو پانے بیج اشکوں کے بوتا تھا

چہرہ چہرہ وحشت ٹھہری آنکھیں تجھ کو بھول گئیں
مورت مورت چپ سی لگی تھی، جانے مجھے کیا ہوتا تھا

چڑھتے چاند کی آہٹ سن کر نگری نگری میرا چراغ
رات کی جھکتی بدلی کے دامن کو پکڑ کر روتا تھا

رستے رستے بکھری ہوئی تھی میرے چراغ کی تنہائی
اک ماندی سی لو میں کس کس کی پرچھائیں سموتا تھا

رستہ چلتے لوگ بھی پاگل امیدوں کو سمجھاتے
کتنا ہی آئینہ دکھاتے تیرا عکس نہ ہوتا تھا

دل کے دل بادل جب تیرا پرسا دے کے چلے جاتے
دور کہیں اک ابر کا ٹکڑا جیسے مجھ کو روتا تھا

ہوش کے بجھتے دیے میں اب تک اس کا آنسو جلتا ہے
اب تک اس کی کھوج میں پگلا دیس بدیس نکلتا ہے