یہ بجھی سی شام یہ سہمی ہوئی پرچھائیاں
خون دل بھی اس فضا میں رنگ بھر سکتا نہیں
آ اتر آ کانپتے ہونٹوں پہ اے مایوس آہ
سقف زنداں پر کوئی پرواز کر سکتا نہیں
جھلملائے میری پلکوں پہ مہ و خور بھی تو کیا؟
اس اندھیرے گھر میں اک تارا اتر سکتا نہیں
لوٹ لی ظلمت نے روئے ہند کی تابندگی
رات کے کاندھے پہ سر رکھ کر ستارے سو گئے
وہ بھیانک آندھیاں، وہ ابتری، وہ خلفشار
کارواں بے راہ ہو نکلا، مسافر کھو گئے
ہیں اسی ایوان بے در میں یقیناً رہنما
آ کے کیوں دیوار تک نقش قدم گم ہو گئے
دیکھ اے جوش عمل وہ سقف یہ دیوار ہے
ایک روزن کھول دینا بھی کوئی دشوار ہے
نظم
تلاش
کیفی اعظمی