EN हिंदी
تلاش آخر | شیح شیری
talash-e-aKHar

نظم

تلاش آخر

علی اکبر عباس

;

آؤ آج سے ہم بھی
خوف خوف ہو جائیں

خوف بھی تو نشہ ہے
خوف بھی تو قوت ہے

خوف کے لیے بھی تو
جان کی ضرورت ہے

آؤ اپنی طاقت کو
ہم بھی آزما دیکھیں

خوف خوف ہو جائیں
خود نمائی کے تیور

ڈھنگ پردہ داری کے
ہم نوائی کے دعوے

رنگ دشمنی کے سب، خوف کی علامت ہیں
قربتوں کی خواہش میں

سر گرانیاں کیا کیا
دوریوں کے حق میں بھی

معرکے دلائل کے
ایک آنکھ لذت ہے

ایک آنکھ وحشت ہے
ہم نے دونوں آنکھوں سے

کوئی شے نہیں دیکھی
آؤ دونوں آنکھوں کو

بند کر کے رکھ چھوڑیں
اور پھر کوئی بھی شے

سوچ لیں کہ ایسی ہے
خوف خوف ہو جائیں