EN हिंदी
تلاش | شیح شیری
talash

نظم

تلاش

عارفہ شہزاد

;

دسمبر کے دالان میں
اس چمکتی ہوئی آفتابی تمازت کو روح میں اتارے

کرن در کرن تم کسے دیکھتی ہو
خنک سی ہواؤں کی ان سرسراتی ہوئی انگلیوں میں

جو اک لمس محسوس کرنے لگی ہو وہ کیا ہے
کوئی واہمہ ہے؟ حقیقت ہے کوئی؟

کہ اک خواب ہے جو سر راہ آ کر ملا ہے
شب و روز مصروفیت میں گھری ہو

کوئی کام بھی ہو
اسے ایک لمحہ نہیں بھولتی ہو!

تمہیں کیا ہوا ہے
سڑک پر رواں

اپنی گاڑی میں بیٹھی
یہاں آتی جاتی ہوئی گاڑیوں میں

کسے دیکھتی ہو
کبھی سامنا ہو

تو آنکھوں میں اس کی
کسے ڈھونڈھتی ہو؟