وہ تیرگی بھی عجیب تھی
چاندنی کی ٹھنڈی گداز چادر سے سارا جنگل لپٹ رہا تھا
گلوں کے صد رنگ
دھندلے دھندلے سے
جیسے اک سیم تن کے چہرے کے شوخ غازے پہ
آنسوؤں کا غبار ہو
پیڑ، منتظر
اپنی نرم شاخوں کے ہاتھ پھیلائے
اور کبھی کوئی شاخ چٹکی
تو سائے نکلے
ملوک پھولوں کو چوم کر
چاندنی کی چادر پہ ناچتے تھے
کہاں سے آئی
وہ اک کرن
جس نے پھیلتی تیرگی کی گھمبیرتا کو چیرا
تو میرے بھیتر میں ایک کرنوں کا سلسلہ یوں اتر رہا تھا
کہ کوہ آتش فشاں سے لاوا نشیب کو بہہ رہا ہو
میرے لہو سے سوج ابل پڑے
جن کی تیز حدت سے تیرگی کے مہیب یخ بستہ سنگ پگھلے
تو نور کے راستوں کا اک جال کھل گیا
مگر ابھی تو مہیب کالے پہاڑ کچھ اور بھی نظر آ رہے ہیں
اور میں سفر کی حدت سے جل رہا ہوں
ذرا میں اب چاندنی کی ٹھنڈی گداز چادر میں
دم تو لے لوں
کہیں ابلتی ہوئی یہ آتش
مجھے جلا کر بھسم نہ کر دے
نظم
تکمیل
اعجاز فاروقی