EN हिंदी
تکیہ | شیح شیری
takiya

نظم

تکیہ

حفیظ جالندھری

;

امارت اور شوکت اور سرمائے کی تصویریں
یہ ایوانات سب ہیں حال ہی کی تازہ تعمیریں

ادھر کچھ فاصلے پر چند گھر تھے کاشت کاروں کے
جہاں اب کارخانے بن گئے سرمایہ داروں کے

مویشی ہو گئے نیلام کیوں یہ کوئی کیا جانے
کچہری جانے ساہوکار جانے یا خدا جانے

زمیں داروں کو جا کر دیکھ لے جو بھی کوئی چاہے
نئے بھٹوں میں اینٹیں تھاپتے پھرتے ہیں ہلواہے

یہاں اپنے پرانے گاؤں کا اب کیا رہا باقی
یہی تکیہ یہی اک میں یہی اک جھونپڑا باقی

عظیم الشان بستی ہے یہ نو آباد ویرانہ
یہاں ہم اجنبی دونوں ہیں میں اور میرا کاشانہ