کچھ کہوں تو دم گھٹتا ہے
اور خاموشی مجھے اندر سے کاٹتی ہے
خیالات پر لفظوں کے پہناوے
پورے نہیں آتے
کاغذوں پر دکھ اتارنا بھی تو دکھ کی بات ہے
نظمیں مجھے خالی کر دیتی ہیں
یہ شاعری تو مجھے عریاں کر دے گی!
میں اور کتنے چہرے پہنوں
بینائی کے جمگھٹے میں
بار بار خود سے بچھڑ جاتا ہوں
سو میں نے اپنی یاد داشت میں ایک
تنہائی تخلیق کی
تاکہ اس میں بیٹھ کر مجھے خود کو دہرانے
کا موقعہ ملتا رہے
فرصت نے مجھے تھکا دیا تھا
شکر ہے! میں اپنے کسی کام تو آیا!
نظم
تخلیق کی ساعتوں میں
انجم سلیمی