EN हिंदी
تخلیق | شیح شیری
taKHliq

نظم

تخلیق

احمد فراز

;

درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں
زخم دل جاگ سکے نشتر غم رقص کرے

جو بھی سانسوں میں گھلا ہے اسے عریاں نہ کرو
چپ بھی شعلہ ہے مگر کوئی نہ الزام دھرے

ایسے الزام کہ خود اپنے تراشے ہوئے بت
جذبۂ کاوش خالق کو نگوں سار کریں

مو قلم حلقۂ ابرو کو بنا دے خنجر
لفظ نوحوں میں رقم مدح رخ یار کریں

رقص مینا سے اٹھے نغمۂ رقص بسمل
ساز خود اپنے مغنی کو گنہ گار کریں

مرہم اشک نہیں زخم طلب کا چارہ
خوں بھی روؤگے تو کس خاک کی سج دھج ہوگی

کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہوگی

کوئی پتھر ہو کہ نغمہ کوئی پیکر ہو کہ رنگ
جو بھی تصویر بناؤ گے اپاہج ہوگی