EN हिंदी
تجزیہ | شیح شیری
tajziya

نظم

تجزیہ

راشد آذر

;

دوستو آج بے سمت چلتے ہیں لوگ
تم بھی اس بھیڑ میں کھو کے رہ جاؤگے

آؤ ماضی کی کھولیں کتاب عمل
اک نظر سرسری ہی سہی ڈال کر

دیکھ لیں اپنے سب کارناموں کا حشر
تجزیہ اپنی ناکامیوں کا کریں

اپنی محرومیوں پر ہنسیں خوب جی کھو کر
اور سوچیں کہ کیوں

شہر کے شور میں گم کراہوں کا نوحہ ہوا
ہم پہ کیوں بے دلی چھا گئی

رینگتی زندگی کی بقا کے لیے
ہم نے کیوں اڑتے لمحوں کے پر کاٹ کر رکھ دیے

اک جبلت کی تسکین کے واسطے
کر کے سمجھوتا اپنے ہی دشمن کے ساتھ

ولولے بیچ ڈالے حریفوں کے ہاتھ