EN हिंदी
تجزیہ | شیح شیری
tajziya

نظم

تجزیہ

جاں نثاراختر

;

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
پھر بھی جب پاس تو نہیں ہوتی

خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں

جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے

دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
پھر بھی رہ رہ کے میرے کانوں میں

گونجتی ہے تری حسیں آواز
جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز

ہر صدا ناگوار ہوتی ہے
ان سکوت آشنا ترانوں میں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

پھر بھی شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں

تیری ہر بات سوچتا ہوں میں
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں

رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

پھر بھی احساس سے نجات نہیں
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے

دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں

جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

پھر بھی شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں

تیری ہر بات سوچتا ہوں میں
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں

رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

پھر بھی احساس سے نجات نہیں
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے

دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں

جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن