EN हिंदी
تجربہ گاہ | شیح شیری
tajarba-gah

نظم

تجربہ گاہ

مصحف اقبال توصیفی

;

پتھر کے کمرے میں اس نے
مٹی دھات نمک کو

ایٹم
اور اس سے بھی چھوٹے ذروں میں بانٹا

اک اونچی میز پہ لیٹے وقت کو کلوروفارم سونگھا کر
اس کے ایک ایک عضو کو کاٹا

صدیوں
برسوں اور مہینوں

اک اک پل میں
ایک تکونے چمٹے سے

ایک سلائڈ پر میری کچھ سانسیں رکھیں
شیشے کی نلکی سے

میری گردن کو ہلایا
دو آنکھوں میں

ماضی حال اور مستقبل کے خواب جگائے
اک تیزاب سے مجھ کو اندھا کر کے

اک ٹیسٹ ٹیوب ذرا سا ٹیڑھا کر کے