EN हिंदी
تحیر عشق | شیح شیری
tahayyur ishq

نظم

تحیر عشق

حمیرا راحتؔ

;

بہ مشکل ایک حیرانی کو
آنکھوں سے نکالا تھا

کہ پھر اک اور حیرانی
یہ بستی کیسی بستی ہے جہاں پر

میرا ہر اک خواب
حیرانی کی اک چادر کو اوڑھ

سو رہا ہے
اور تحیر کی قبا پہنے ہوئے ہیں

اشک سارے
اور یہاں تک کہ ہمارے عشق نے بھی

ہجر کے اک سنگ پر جو لفظ لکھا ہے
وہ حیرت ہے

وہی اک لفظ جو اب میرے دل کے
آئینے سے برسر پیکار ہے

اور کون جانے
آئینہ باقی رہے گا

یا ہمارے عشق کی حیرت