EN हिंदी
تہ خنجر | شیح شیری
tah-e-KHanjar

نظم

تہ خنجر

اویس احمد دوراں

;

اقلیت کہیں کی ہو تہ خنجر ہی رہتی ہے
ہلاکت خیز ہاتھوں کے ہزاروں جبر سہتی ہے

خس و خاشاک کی مانند سیل غم میں بہتی ہے
نہ کوئی خواب آنکھوں میں نہ دل میں آسرا کوئی

نہ جوئے خوں سے بچنے کا نظر میں راستہ کوئی
نہ مستقبل کی آوازیں نہ منزل کی صدا کوئی

خود اپنی ہی فضا میں خوف کا احساس ہر لمحہ
عدم محفوظیت کا دور تک غم ناک سناٹا

سہانی ہو کے بھی بے رونق و بے کیف سی دنیا
حقارت کی نظر نفرت کی چنگاری تعاقب میں

مصیبت آگے آگے ذلت و خواری تعاقب میں
جدھر جائے وہیں طوفان بے زاری تعاقب میں

زباں معتوب تہذیب و ثقافت دار کی زد میں
گھر آنگن عزت و ناموس کل تلوار کی زد میں

لبوں کی مسکراہٹ آتشیں یلغار کی زد میں
اقلیت جہاں بھی ہے یہی اس کا مقدر ہے

یہ زخمی بے اماں مخلوق ہر سو زیر خنجر ہے
بتا اے دل یہ غم کی رات ہے یا روز محشر ہے