ہم کتنا روئے تھے جب اک دن سوچا تھا ہم مر جائیں گے
اور ہم سے ہر نعمت کی لذت کا احساس جدا ہو جائے گا
چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے شہد کی مکھی کی بھن بھن
چڑیوں کی چوں چوں کوؤں کا ایک اک تنکا چننا
نیم کی سب سے اونچی شاخ پہ جا کر رکھ دینا اور گھونسلہ بننا
سڑکیں کوٹنے والے انجن کی چھک چھک بچوں کا دھول اڑانا
آدھے ننگے مزدوروں کو پیاز سے روٹی کھاتے دیکھے جانا
یہ سب لا یعنی بیکار مشاغل بیٹھے بیٹھے ایک دم چھن جائیں گے
ہم کتنا روئے تھے جب پہلی بار یہ خطرہ اندر جاگا تھا
اس گردش کرنے والی دھرتی سے رشتہ ٹوٹے گا ہم جامد ہو جائیں گے
لیکن کب سے لب ساکت ہیں دل کی ہنگامہ آرائی کی
برسوں سے آواز نہیں آئی اور اس مرگ مسلسل پر
ان کم مایہ آنکھوں سے اک قطرہ آنسو بھی تو نہیں ٹپکا
نظم
تفاوت
اختر الایمان