تدفین
چار طرف سناٹے کی دیواریں ہیں
اور مرکز میں اک تازہ تازہ قبر کھدی ہے
کوئی جنازہ آنے والا ہے
کچھ اور نہیں تو آج شہادت کا کلمہ سننے کو ملے گا
کانوں کے اک صدی پرانے قفل کھلیں گے
آج مری قلاش سماعت کو آواز کی دولت ارزانی ہوگی
دیواروں کے سائے میں اک بہت بڑا انبوہ نمایاں ہوتا ہے
جو آہستہ آہستہ قبر کی جانب آتا ہے
ان لوگوں کے قدموں کی کوئی چاپ نہیں ہے
لب ہلتے ہیں لیکن حرف صدا بننے سے پہلے مر جاتے ہیں
آنکھوں سے آنسو جاری ہیں
لیکن آنسو تو ویسے بھی
دل و دماغ کے سناٹوں کی تمثالیں ہوتے ہیں
میت قبر میں اتری ہے
اور حد نظر تک لوگ بلکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
اور صرف دکھائی دیتے ہیں
اور کان دھرو تو سناٹے ہی سنائی دیتے ہیں
جب قبر مکمل ہو جاتی ہے
اک بوڑھا جو ''وقت'' نظر آتا ہے اپنے حلیے سے
ہاتھوں میں اٹھائے کتبہ قبر پہ جھکتا ہے
جب اٹھتا ہے تو کتبے کا ہر حرف گرجنے لگتا ہے
یہ لوح مزار ''آواز'' کی ہے!
نظم
تدفین
احمد ندیم قاسمی