صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے کبھی
ننھے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے
رقص کرتے ہوئے گنگناتے ہوئے
اپنے بستوں کو گردن میں ڈالے ہوئے
انگلیاں ایک کی ایک پکڑے ہوئے
صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے انہیں
مامتا ان کی راہوں میں سایہ کرے
ان کے قدموں میں خوشبو بچھایا کرے
دیوتا ان کے ہاتھوں کو چوما کریں
من ہی من ان کی باتوں پہ جھوما کریں
صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے انہیں
میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوڑ کر
ایک ننھے کہ انگلی پکڑ کر کہوں
مجھ کو بھی اپنے اسکول لیتے چلو
تاکہ یہ تشنۂ آرزوئے زندگی
پھر سے آغاز شوق سفر کر سکے
نظم
تبدیلی
زبیر رضوی