مرا بیٹا
بلوغت کی حدیں چھونے لگا ہے
اسے نازک رنگا رنگ تتلیاں خوش آ رہی ہیں
وہ اکثر گنگناتا ہے دھنک نغمے
اب اس کی پتلیوں میں سبز فصلیں لہلہاتی ہیں
وہ سوتا ہے تو خوابوں میں کہیں گل گشت کرتا ہے
اب اس کی مسکراہٹ میں چبھن ہے
اور اس کے ہاتھ گستاخی کے جویا ہو چلے ہیں
وہ کانوں پر یقیں کرنے کو راضی ہی نہیں ہے
اسے اسباب کی سچائیوں پر شک گزرتا ہے
وہ اب ہر چیز کو چھو کر پرکھنا چاہتا ہے
نظم
تبدیلی
راشد جمال فاروقی