چمک ہیرے سے بڑھ کر اے تبسم تجھ میں پنہاں ہے
انہیں ہونٹوں پہ ضو بکھرا تو جن ہونٹوں کو شایاں ہے
مثال برق تو گرتا ہے جان ناشکیبا پر
گری تھی جس طرح بجلی کلیم طور سینا پر
نہ ہوگا لعل کوئی تیری قیمت کا بدخشاں میں
تو ہی اک مصرع برجستہ ہے قدرت کے دیواں میں
جہاں کی دولتوں میں کوئی بھی دولت نہیں ایسی
فلک پر کب چمکتی ہے ستاروں کی جبیں ایسی
غم دنیا کا شاکی جب ہوا حق سے دل آدم
تجھے دے کر عطا فرما دیا ہر زخم کا مرہم
ہوا جاتا ہے پژمردہ دل آوارہ سینے میں
تو ٹپکا قطرہ آب بقا اس آبگینے میں
جھلک پل بھر کی ہے لیکن اثر ہے دائمی تیرا
سر گلزار دم بھرتی ہے گویا ہر کلی تیرا
لب جاں بخش پر کچھ کچھ نمایاں ہو کے رہ جا پھر
ادھوری رہ گئی ہے داستان عشق کہہ جا پھر
نظم
تبسم
امجد نجمی