اک روشنی کی کرن پھوٹ کر
سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی
اور کمرے میں پھرتے ہوئے
سینکڑوں زرد ذرے
بلبلاتے سسکتے ہوئے
میری جانب بڑھے
میں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی
زرد ذروں سے گویا ہوا
دوستو
آؤ بڑھتے چلیں
روشنی کی طرح روشنی کی طرف
روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ہے
روشنی جو ہماری تمناؤں کی آس ہے
زرد ذرے میرے ساتھ بڑھنے لگے
روشنی کی طرف روشنی کی طرف
چند ذرے کہ جن کی رگوں میں
سیہ رات کی ظلمتیں بس چکی تھیں
میری باتوں پہ ہنسنے لگے
اور ہنستے رہے
تب ہزاروں اندھیروں کے سینے میں
پھیلا ہوا اک طلسم
روشنی کی تب و تاب سے
ٹوٹنے کے لیے
اور آگے بڑھا

نظم
تب ہزاروں اندھیروں سے
اعجاز راہی