تم سر بام آ کر
اٹھایا ہوا ہاتھ اپنا ہلا کر
چمک دار آنکھوں سے اپنی
مجھے رخصتی کا اگر اذن دیتیں
تو میں دشمنوں کے لیے
موت بن کر نکلتا
تمہارے فقط اک اشارے سے
کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا
تم دیکھتیں کس طرح میں
زمانے کی سرحد ذرا دیر میں پار کرتا
ہر اک سمت سے وار کرتا
محبت کی تاریخ تبدیل کرتا
نئی رزم بوطیقا تشکیل دیتا
میں لشکر کا سب سے بہادر سپاہی تھا
میرے لیے ایک آنسو بہت تھا
مگر تم نے اشکوں کی برسات کر کے
مجھے اس قدر غم زدہ کر دیا ہے
کہ لگتا ہے یہ معرکہ ہار جاؤں گا میں
لوٹ کر اب نہ آؤں گا میں.....!
نظم
تاریخ ٹسوے بہائے گی
نصیر احمد ناصر