برس بھر کی خوشی کے ہم نے کچھ نقشے بنائے تھے
بھرے تھے ان میں کیسے کیسے دلکش رنگ
ابھی وہ رنگ سوکھے بھی نہ تھے بارش نے آ گھیرا
وہ نقشے ہو گئے بد رنگ
کہاں سے یک بہ یک برسے یہ پتھر
کہ خوابوں کی ہر اک کھڑکی کے شیشے چور کر ڈالے
کہاں سے تیزی و تندی بھری یہ شعلگی آئی
کہ جس نے آرزو و شوق کی زنجیر پگھلائی
ابھی تو آرزوئے وصل نے دونوں دلوں میں گھر بسایا تھا
ابھی اس ہجر کے ڈر نے اسے بے دخل کر ڈالا
ابھی آزادئی جسم و دل و جاں کا ترانہ ہم نے چھیڑا تھا
ابھی کس نے تمہارے دل پہ پھر پھونکا وہی منتر
کہ تم انساں نہیں ہو اک سماجی جانور ہو تم
تمہیں رسموں کا قانونوں کا بھاری بوجھ ڈھونا ہے
نمائش کے کسی رشتے کی خاطر ہنسنا رونا ہے
نہ انساں ہو نہ حیواں ہو سماجی جانور ہو تم
سماجی جانور ہو تم
نظم
تعلق توڑنے والے
عمیق حنفی