لفظ اور ہونٹ کے مابین کہیں
سانس الجھ جاتی ہے
تیرے آنگن کے کسی گوشۂ نادیدہ میں
منحنی ہاتھوں سے دیوار پکڑتی ہوئی
امید کی بیل
اپنے ہی غم سے دہکتی رہی دم دم پیہم
اپنے ہی نم سے مہکتی رہی موسم موسم
لفظ ابھرتے رہے رک رک کے سر شاخ نیاز
بیل کے پھول کبھی رنگ کبھی خوشبو سے
آن کی آن ترے لمس میں جینا چاہیں
مجس ذات کی تنہائی میں
اور زمستان خموشی کی گرانباری میں
یہی ارمان رہا
تو انہیں چاہے نہ چاہے لیکن
کبھی پل بھر کو پذیرائی کا اظہار کرے
لمحہ بھر لذت شنوائی سے سرشار کرے
آج اس درد کی برسات کے دن
بیل سے ایک مہک اٹھی ہے طوفاں کی طرح
پھول وا ہونٹوں کے مانند ہیں ہر برگ ہے اک دیدۂ گریاں کی طرح
اور ہوا کانپ رہی ہے کسی ہم راز پریشاں کی طرح
کیا یہ بیتاب دھڑکتے ہوئے لفظ
آج بھی تیری مژہ پر نہ منور ہوں گے
نظم
تابہ کے
ضیا جالندھری