EN हिंदी
تعاقب اپنے ہم زاد کا | شیح شیری
taaqub apne ham-zad ka

نظم

تعاقب اپنے ہم زاد کا

پرویز شہریار

;

چھوڑ آیا ہوں میں اپنا چھوٹا سا گھر
تعاقب کرتا ہے وہ اب میرا عمر بھر

جنگل کنارے پربتوں کے تلے
ہری بھری وادیوں میں

جہاں بہتے تھے برساتی پرنالے
چھوڑ آیا ہوں میں اپنا چھوٹا سا گھر

حد نگاہ تک وہ خوشنما منظر
بادلوں کی اوٹ سے پہاڑی نظارے

بجلی کی چمک بادل کی گرج
کبھی چھت ٹپکتی تھی تو کبھی ہلتی تھیں دیواریں

کتاب کاپیوں کو سینے میں چھپانا
سرد ہوا کے جھونکوں سے چراغ کا ٹمٹمانا

وہ تیرا معصوم چہرہ
وہ تیرا بھیگی پلکوں سے مسکرانا

وہ آزمائش کی کالی راتیں وہ امتحانوں کا ڈر
چھوڑ آیا ہوں میں اپنا چھوٹا سا گھر

حافظے میں دفن ہے جس کا اب بھی وہ منظر
مٹ میلی سی تھیں جس کی دیواریں

سرخ تھا جس کا چھپر
جنگلے کی کمزور سلاخوں سے

آنکھوں میں آنسو لیے
ایک لڑکا دیکھا کرتا تھا

قومی شاہراہ کا منظر
جہاں سے دیوانہ وار بسوں اور ٹرکوں کا کارواں

بھاگتا دوڑتا رہتا تھا بڑے شہروں کی سمت
ہاں بڑے شہروں کی سمت

جن کی خود لاپتہ تھیں سمتیں!!
آج چالیس سال بعد وہ لڑکا سوچتا ہے

بڑا شہر سراب ہے سنہری ہرن کا خواب ہے
بڑے شہر کی چاہ میں دوڑتے دوڑتے

وہ بے سمت بے منظر بے گھر ہو گیا ہے
لیکن پھر کبھی کبھی اسے احساس ہوتا ہے

اس کی بھی اپنی اساس ہے
اس کا سہانہ منظر اس کے پاس ہے

اس کا بھی اپنا گھر ہے
وہ چھوٹا سا گھر وہ مٹ میلی دیواریں

وہ سرخ چھپر
جہاں آشنا نگاہیں

جہاں محبت آمیز باہیں
آج بھی اس کا انتظار کر رہی ہیں

اس شہر کو چھوڑ کر اک دن وہ چلا جائے گا
وہاں سے پھر کبھی کہیں بھی نہیں جائے گا