EN हिंदी
سورج کا شہر | شیح شیری
suraj ka shahr

نظم

سورج کا شہر

شہاب جعفری

;

''نہیں یہ سورج کے شہر کا آدمی نہیں ہے
کہ یہ تو مرنے کے بعد فٹ پاتھ پر پڑا ہے

یہ لاش ہم سب کی طرح سورج کے ساتھ گردش میں کیوں نہیں ہے؟
پڑھو تو اس ڈائری میں کیا ہے؟''

نچے کھچے اک ورق پہ کچھ یوں لکھا ہوا تھا
''میں اپنی دنیائے فکر و فن تج کے آج بن باس میں پڑا ہوں

ضرورتوں میں گھرا ہوا ہوں
یہاں تو دو اور دو کا حاصل ہمیشہ ہی چار ہاتھ آیا

کہ پانچ نا ممکنات میں ہے
عظیم فن کار کا قلم ہو کہ کارخانے

کسی کو تخلیق حسن کی آرزو نہیں ہے
مقدس آگ ان کے دل کی یوں پیٹ کے جہنم میں جل رہی ہے

کہ زندگی کی جو قوتیں ہیں وہ خود کو زندہ ہی رکھنے میں صرف ہو رہی ہیں
مشین کی طرح ذہن بھی کام کر رہے ہیں

رگوں میں جیتے لہو کے بدلے رقیق لوہا بھرا ہوا ہے
مشین کی طرح پانو چلتے ہیں

آدمی کا جلال گردش میں سرنگوں ہے
ارادہ و اختیار اک اضطراب سنگیں ہے جس سے بچ کر

کوئی نہیں دو گھڑی کسی سے جو بے غرض رک کے بات کر لے
(کسے خبر، آدمی کے دو میٹھے بول کو میں ترس گیا ہوں)''

یہاں یہ تحریر آنسوؤں سے مٹی ہوئی تھی اور اس سے آگے
''یہ شہر سورج کا شہر ہے اس کے روز و شب کا پتہ نہیں ہے

نہ آج تک وقت اور تاریخ کا مجھے علم ہو سکا ہے
کہ میرے احساس میں کوئی آج ہے نہ کل

اور یہ رات ہے یا سیاہ سورج؟
غروب ہو کر بھی آسمان و زمیں سے پیہم گزر رہا ہے

بس اس جہاں میں سیاہ و روشن ہمیشہ دن ہے
ہمیشہ سورج ہی اپنے سر پر کھڑا ہوا ہے

یہ کائنات اک شکستہ گاڑی ہے ایک پہیے پہ چل رہی ہے
زمین کا چاند کیا خبر کس اندھیرے پاتال میں گرا ہو

ہر ایک شے بھاگتی ہوئی ایک دوسرے کی تلاش میں گم
بس ایک تصادم

ہر ایک شخص ایک دوڑتی لاش ہے کہ اک دوسرے سے وحشت زدہ، گریزاں
سب اپنا سورج سے منہ چھپاے تلاش میں وقت کی ہراساں

کسی کو اتنی بھی شام ملتی نہیں کہ تھوڑا اداس ہو لیں''
یہاں پہ جملے عجیب سے تھے لہو کے دھبوں سے مٹ گئے تھے