دیکھ کے تجھ کو یہ آتا ہے کہ لکھوں میں غزل
سوچتا ہوں میں یہی پھر کہ ضرورت کیا ہے
حسن پہ تیرے یہ رعنائی تری شان جو ہے
یہ تری زلفوں میں خم جو ہے سراپے کی شبیہ
تیرے نینوں کی کجی جو ہے اداؤں پہ عروج
سرخیٔ لب کہ جو مذبح ہے تمناؤں کا
تیرا جوبن کہ جو شرمندۂ صد فتنہ ہے
شکریا تیرے حضوری کا بیاں کیسے ہو
جس کی مستی میں مقید ہیں سبھی کے اذہان
شعر و نغمے اسی سرشاری کے دو گانے ہیں
تم تو خود ہی ہو غزل جس پہ تغزل ہے نثار
اور اسے پڑھنا جو چاہوں تو نہ اس کا اتمام
اور لفظوں میں اتاروں تو ہر اک لفظ سرور
نظم
سرور
اخلاق احمد آہن