EN हिंदी
سرمہ ہو یا تارا | شیح شیری
surma ho ya tara

نظم

سرمہ ہو یا تارا

علی اکبر ناطق

;

درد کی لذت سے ناواقف خوشبو سے مانوس نہ تھا
میرے گھر کی مٹی سے وہ شخص بہت بیگانہ تھا

تارے چنتے چنتے جس نے پھول نظر انداز کیے
خواب کسے معلوم نہیں ہیں لمس کسے محبوب نہیں

لیکن جو تعبیر نہ جانے اس کو اونگھ بھی لینا عیب
رات کی قیمت ہجر میں سمجھی جس نے آنسو نور بنے

زخم سے اٹھنے والی ٹیسیں اوس کی ٹھنڈک پیتی ہیں
آج نہ پوچھو دکھنے لگی ہے سرمے سے کیوں اس کی آنکھ

جس کو سنہرے دن کا سورج کرنیں بانٹنے آتا تھا
پتھر آخر پتھر ہوگا سرمہ ہو یا تارا ہو