درد کی لذت سے ناواقف خوشبو سے مانوس نہ تھا
میرے گھر کی مٹی سے وہ شخص بہت بیگانہ تھا
تارے چنتے چنتے جس نے پھول نظر انداز کیے
خواب کسے معلوم نہیں ہیں لمس کسے محبوب نہیں
لیکن جو تعبیر نہ جانے اس کو اونگھ بھی لینا عیب
رات کی قیمت ہجر میں سمجھی جس نے آنسو نور بنے
زخم سے اٹھنے والی ٹیسیں اوس کی ٹھنڈک پیتی ہیں
آج نہ پوچھو دکھنے لگی ہے سرمے سے کیوں اس کی آنکھ
جس کو سنہرے دن کا سورج کرنیں بانٹنے آتا تھا
پتھر آخر پتھر ہوگا سرمہ ہو یا تارا ہو
نظم
سرمہ ہو یا تارا
علی اکبر ناطق