EN हिंदी
سرخ ستارہ | شیح شیری
surKH sitara

نظم

سرخ ستارہ

عامر عثمانی

;

تم سمجھتے ہو یہ شب آپ ہی ڈھل جائے گی
خود ہی ابھرے گا نئی صبح کا زریں پرچم

میں سمجھتا ہوں کسی صبح درخشاں کے عوض
قہر کی ایک نئی رات کو دے گی یہ جنم

اور اس رات کی تاریکی میں کھو جائیں گے
مکتب و خانقہ و دیر و کلیسا و حرم

دیو ظلمات کی ٹھوکر سے نہ پائیں گے پناہ
یہ شوالے، یہ مساجد، یہ پجاری، یہ صنم

رکھ دیے جائیں گے شمشیر کے زیر سایہ
دست ماتم لب فریاد، زبان و تنقید

برف جم جائے گی افکار کے گلزاروں پر
یخ ہواؤں میں ہی جم جائے گی کشت امید

چاندنی ظلمت سیال میں ڈھل جائے گی
رات کی مانگ سنوارے گی شعاع امید

اہل فن دیں گے اندھیروں کو اجالوں کا لقب
زہر کو قند، محرم کو کہا جائے گا عید

یہ مرا وہم نہیں، ناول و افسانہ نہیں
دوستو! غور کرو، اور نگاہیں تو اٹھاؤ

وہ جو اک سرخ ستارہ ہے افق کے نزدیک
کچھ تمہیں علم ہے کس رخ پہ ہے اس کا پھیلاؤ

کاش تم اس کی حقیقت پہ نظر ڈال سکو
ہے یہ اک آتش صد برق بداماں کا الاؤ

اس کی کرنوں میں ہے چلتی ہوئی تلوار کی کاٹ
اس کی سرخی میں ہے امڈے ہوئے دریا کا بہاؤ

اس کے دامن میں ہے آسودہ وہ فتنہ جس سے
جسم تو جسم میسر نہیں روحوں کو اماں

دل، نظر، ذہن، خیالات، اصول و اقدار
سب کے سب اس کی تگ و تاز سے لرزاں ترساں

اس کی پرچھائیں بھی پڑ جائے تو سبزہ جل جائے
دیکھتے دیکھتے ماحول پہ چھا جائے دھواں

اس کے شعلوں کا تو کیا ذکر کہ شعلے ٹھہرے
اس کی شبنم بھی گلستاں کے لیے برق تپاں