EN हिंदी
سنا ہے میں نے | شیح شیری
suna hai maine

نظم

سنا ہے میں نے

ندا فاضلی

;

سنا ہے میں نے!
کئی دن سے تم پریشاں ہو

کسی خیال میں
ہر وقت کھوئی رہتی ہو

گلی میں جاتی ہو
جاتے ہی لوٹ آتی ہو

کہیں کی چیز
کہیں رکھ کے بھول جاتی ہو

کچن میں!
روز کوئی پیالی توڑ دیتی ہو

مسالہ پیس کر
سل یونہی چھوڑ دیتی ہو

نصیحتوں سے خفا
مشوروں سے الجھن سی

کمر میں درد کی لہریں
رگوں میں اینٹھن سی

یقین جانو!
بہت دور بھی نہیں وہ گھڑی

ہر اک فسانے کا عنواں بدل چکا ہوگا
مرے پلنگ کی چوڑائی

گھٹ چکی ہوگی
تمہارے جسم کا سورج پگھل چکا ہوگا