EN हिंदी
سنا ہے چاندنی راتوں میں اکثر تم | شیح شیری
suna hai chandni-raaton mein aksar tum

نظم

سنا ہے چاندنی راتوں میں اکثر تم

اسریٰ رضوی

;

خموشی سے دبے پاؤں
بھری محفل سے اٹھتے ہو

کھلے آکاش کے نیچے کہیں پر بیٹھ جاتے ہو
پھر اپنا ہاتھ ہولے سے بڑھاتے ہو

چمکتے چاند کی جانب
کبھی تو مسکراتے ہو کبھی کچھ گنگناتے ہو

جو میرؔ و دردؔ کی غزلیں کبھی ہم کو سناتے تھے
وہی سرگوشیاں مجھ سے جو اکثر کرتے رہتے تھے

ہوا کے دوش پر بیٹھی کرن سے کرنے لگتے ہو
سنا ہے بے قراری میں

ٹہلتے ہو کبھی چھت پر
کبھی ہر عکس میں میرا سراپا ڈھونڈھتے ہو تم

ہواؤں میں مری خوشبو کبھی محسوس کرتے ہو
کبھی بے آس ہو کر پھر زمیں پر بیٹھ جاتے ہو

بہت فریاد کرتے ہو
مجھے ہی یاد کرتے ہو

مگر یہ ساری باتیں تو محض خوابوں کی باتیں ہیں
کھلی جب آنکھ میری تو نظارہ اور ہی دیکھا

کوئی پیغام آیا تھا
ہمارے نام آیا تھا

لکھا تھا اس میں دیکھو نا
کہ اب کی چاند جو نکلا

اسے نزدیک سے دیکھا
اسے محسوس کر پایا

مکمل پا لیا اس کو جو شہ رگ میں مچلتا تھا
مبارک باد تو دے دو وہ میرا ہو گیا اب کی

سنا ہے چاندنی راتوں میں تم بھی سو نہیں پاتی
تو اب کی چین سے سونا کہ اب میں بھی نہیں جگتا