خنک موسم نہیں گزرا
سفر سورج کرے تو ابر اس کے ساتھ چلتا ہے
ابھی ندی کے پانی پر ہوا کے تازیانے سے نشاں پیدا نہیں ہوتا
تبر کی ضرب کاری سے، شاخوں سے زمیں پر
پتا پتا حرف گرتے ہیں
کوئی فقرہ شجر کے زخم مہمل کی پذیرائی نہیں کرتا
لہو معنی نہیں دیتا
تو پھر قرطاس احمر ہو کہ ابیض رنگ پیراہن سے
خوشبوئے سخن نکلے تو جی بہلے
مہکتا ہے کہیں صیاد کے فتراک میں نافہ
مرے محبوب کا وعدہ
اسی تشنہ ستارے کے تعاقب میں سخن اپنا فلک مہتاب و انجم کے سفینوں سے
بھرا دریا گنوا بیٹھا
مسافت سطر سے تا سطر کس سورج پہ طے ہوگی
کوئی ٹکڑا فلک کا ہاتھ آئے تو رجز لکھیں
دعا کے بادباں کھولیں
کسے کس گھاٹ اترنا ہے؟
کہو ان سے جو اگلے مورچوں سے صلح کا پیغام دیتے ہیں
مقابل لوح مضمون تسلی بھی ہے
لحن خود گرفتہ بھی
کسے کس گھاٹ اترنا ہے
سراب رنگ میں محو سفر ان آہوان نافۂ گم کردہ سے، کچھ پوچھو
کسے کس گھاٹ اترنا ہے

نظم
سخن درماندہ ہے
اختر حسین جعفری