EN हिंदी
سہانا خواب | شیح شیری
suhana KHwab

نظم

سہانا خواب

محمد حنیف رامے

;

جیسے سرابوں کا پیچھا کرتے کرتے لق و دق صحرا میں
اچانک نخلستان مل جاتا ہے

جیسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں
خوب صورت پھول کھل جاتے ہیں

جیسے ٹنڈمنڈ درختوں پر
نئی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں

جیسے چار سو چھائی ہوئی خاموشی میں
دیوانی کوئل کوک اٹھتی ہے

جیسے مایوسیوں اور تنہائیوں میں
محبوب کی بھولی بسری یاد آ جاتی ہے

جیسے کالے بادلوں کے پیچھے سے
چمکتا چاند نکل آتا ہے

جیسے ہجر کی لمبی رات کے بعد
صبح وصال طلوع ہو جاتی ہے

ویسے ہی زندگی کا بوجھ سہتے سہتے
موت ایک سہانا خواب بن جاتی ہے

اور خدا کی نعمتوں میں سے
ایک نعمت