EN हिंदी
صبح سے شام تک | شیح شیری
subh se sham tak

نظم

صبح سے شام تک

ضیا جالندھری

;

ایک شوخی بھری دوشیزۂ بلور جمال
جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار

سیمگوں رخ سے اٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب
تیز رفتار اڑاتی ہوئی کہرے کا غبار

افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے
مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمار

پھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس
کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے کا خیال

آنکھیں ملتے ہوئے جاگ اٹھتے ہیں لاکھوں احساس
یہ حسینہ مجھے اکساتی ہوئی آتی ہے

نغمے گونج اٹھے ہیں پازیب کی جھنکار کے ساتھ
نقرئی انگلیاں آفاق پہ لہراتی ہیں

جسم کے لوچ میں سیماب کی موجیں ہیں رواں
لہریں باہوں کی تھرکتی ہوئی بل کھاتی ہیں

ناچتے ناچتے بڑھتی ہے مگر رکتی ہوئی
دل کو برماتا ہے اس شوخ کا بھرپور شباب

اس کی گرمی مری سانسوں سے کوئی دور نہیں
فرش مخمل پہ بچھی جاتی ہیں اس کی نظریں

نیلے آنچل میں دمکتی ہوئی شفاف جبیں
اٹھی مشرق سے تو مغرب کی طرف جھکتی ہوئی

مضمحل چہرے کی زردی میں ہے رخصت کا پیام
سرمگیں آنکھوں پہ جھکنے کو ہیں لمبی پلکیں

قرمزی دھاریاں چھن چھن کے سیہ زلفوں سے
جذب ہو جاتی ہیں دہکے ہوئے رخساروں میں

زلفیں بکھری ہوئی شانوں سے ڈھلک آئی ہیں
سر جھکائے ہوئے منہ پھیر کے خاموشی سے

دور مغرب کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہے
میرے دل میں ہیں سلگتی ہوئی یادیں اس کی

انہی یادوں سے مری روح جلی جاتی ہے
کتنی تاریکیاں چپ چاپ سرک آئی ہیں