EN हिंदी
صبح کا تأثر | شیح شیری
subh ka tassur

نظم

صبح کا تأثر

نیاز حیدر

;

سویرے
سیر کو جاتے ہوئے میرے تعاقب میں

پرندوں کی چہک
باد سحرگاہی کے ہلکورے

خمار و خواب کی ساری تھکن میں بھول جاتا ہوں
خرام کیف آور

تال خوش رفتار قدموں کی
رواں رکھتی ہے اک انجان منزل کی طرف مجھ کو

سہانے وقت کی وہ سرمئی دھندلی فضا
جس میں گھنے اشجار

شاخ و برگ
رقص آغاز کرتے ہیں

درختوں کے زمرد رنگ پیراہن کی ہلچل پر
شفق اپنا تبسم جب نچھاور کرنے آتی ہے

رخ گیتی پہ شرمائی ہوئی سی تازگی جس دم
نظر میں قطرۂ شبنم کی صورت جھلملاتی ہے

خیال آتا ہے تب مجھ کو
کہ اس دنیا کی جنت میں

فلاکت اور غربت کے جہنم کیوں دہکتے ہیں
یہ حسن ارض کے

تزئین و آرائش کے شیدائی
غم و اندوہ کے غاروں میں نفرت کے شکنجوں میں

بہ نام زندگی کیونکہ اجل کی راہ تکتے ہیں
بھیانک رات چھا جاتی ہے پھر میرے تخیل پر

تو میری ذہن کے مشرق سے اک سورج ابھرتا ہے
شعاعوں میں پیام جہد کی تابندگی لے کر

تمازت سے یقین و عزم کو معمور کرتا ہے
سحر نا آشنا دل گم نہ کر جاتی ہے تاریکی

امیدوں آرزوؤں کی خبر لاتی ہے تاریکی
خمار و خواب کی ساری تھکن میں بھول جاتا ہوں