تری مخمور سی مسکان ابھی دیکھی تو یاد آیا
مری مسکان پر اک دن مجھے ماں نے بتایا تھا کہ چھوٹا تھا تو اکثر نیند میں میں مسکراتا تھا
(الوہی انگلیوں کی چھیڑ کا میٹھا ترنم میرے لب پر رقص کرتا تھا)
کہ جیسے گدگدی کے اک لطیف احساس کی قلقل سے میری نیند ہنستی تھی
یہ گزرے کل کا قصہ ہے، وہ گزرے کل کی بستی تھی
خدا کا اور ماں کا اور بچپن کا زمانہ تھا
وہ جس میں جی رہا تھا میں اساطیری زمانوں کا کوئی پہلا فسانہ تھا
کہ عہد بے خدا میں بے اماں بے سائباں ہوں میں
سو نیند آتی نہیں مجھ کو، اور آئے بھی تو ڈر کی چاپ سے ہر خواب کانپ اٹھے
سو مرگ خواب کی رت میں
تری مخمور سی مسکان ابھی دیکھی تو ویراں خانہ لب سے دعا نکلی
خدا کی اور تیری چھیڑ یوں ہی عمر بھی ٹھہرے
الوہی انگلیوں کا لمس دائم معتبر ٹھہرے
ترے ہر خواب کے اس پار اک خواب دگر ٹھہرے

نظم
سوتے میں مسکراتے بچے کو دیکھ کر
بلال احمد