EN हिंदी
سوچ رہی ہوں | شیح شیری
soch rahi hun

نظم

سوچ رہی ہوں

میمونہ عباس خان

;

گونگی ہوتی ہوئی خاموشی
سناٹے کی دہلیز پکڑ کر

جانے کب تک جمی رہے گی
میں وہ لفظ ہی بھول آئی ہوں

رستے میں ہی گرا آئی ہوں
جو تم سے ملنے آئے تھے

جانتے ہو تم
لفظ مری دھڑکن تھے اس پل

سینے میں اک حشر بپا تھا
سرخی کا پیراہن اوڑھے

میرے سجیلے لفظ وہ سارے
سپنوں کے رنگین محل میں

رہنے کو بے تاب بہت تھے
تم شاید کچھ کہہ دو ان سے

اک معصوم سی خواہش لے کر
پاس تمہارے آ بیٹھے تھے

لیکن
تم نے جان ہی لے لی ان کی

جیتے جاگتے لفظ وہ سارے
زرد پڑے بس تکتے رہ گئے

اور پھر اس پر
سرد برف سا لہجہ تمہارا

لفظ تو جیسے مرنے لگے تھے
دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی

سرد پڑتی وہ لاشیں ان کی
جس پل میں نے سمیٹی تھیں

ویراں ہوتے سینے میں
ان کی قبریں کھودی تھیں

اور انہیں دفنایا تھا
جس سینے میں حشر بپا تھا

اب سناٹے گونجتے ہیں
میں چپ لے کر آئی ہوں

روز لرزتے ہاتھوں سے
اشکوں میں اک بھیگی ہوئی

چادر ان پہ چڑھاتی ہوں
سوچ رہی ہوں

گونگی ہوتی ہوئی خاموشی
سناٹے کی دہلیز پکڑ کر

جانے کب تک جمی رہے گی