جسم کا جس روپ کا رس کام کا کس
زندگی کی یہ سہانی دھوپ بہلاتی رہی ہے میرے من کو
خوب گرماتی رہی ہے آرزوؤں کی پون کو
اور چمکاتی رہی ہے اپنے پن کو
دے کے اک نشہ نین کو
لذتوں میں ڈوب کر بھی
میں ابھرتا ہی رہا ہوں
سوچ کی بے تاب لہریں ذہن میں رقصاں رہی ہیں
لیکن اب تو اک اداسی چھا گئی ہے
سوچ کی شام آ گئی ہے
زندگی گھبرا گئی ہے
نظم
سوچ کی شام
کرشن موہن