مری دہلیز کا پتھر ہے
تم چاہو تو لے جاؤ اسے
سب پتھر ایک سے ہوتے ہیں
کل بھی
اک بچہ آیا تھا
سہما
سہما
میں نے اس سے
یہ بات کہی
تم چاہو تو لے جاؤ اسے
سب پتھر ایک سے ہوتے ہیں
بچہ ایک دم بول پڑا
کچھ پتھر ہیرے ہوتے ہیں
میں
عقل و خرد کا شیدائی
میں نے جب اس پر غور کیا
اور آنکھ کھلی
مرے سامنے بت تھا پتھر کا
پتھر کا یہ بت
مندر کا خدا
کعبہ کا صنم
مزدور کا فن
میں کیا سمجھوں میں کیا جانوں
ہیرا کہ صنم
پتھر کہ خدا
نظم
سوچ کا دھارا
حسن عابد